لفظ ”فاطمہ کا مادہ ”فطم “ ہے جس کے معنی جدا ہونا اور ایک چیز کادوسری سے علیحدہ ہونا ہے، جیسے کہا جائے
فَطَمَ الْمُرْضِعُ الرَّضِيعَ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ماں نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا۔
فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نام کے باب میں اس معنی کو خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ کی جلد ۱۲ صفحہ ۳۳۱، ابن حجر نے صواعق محرقہ کے صفحہ ۱۵۸ اور ملاعلی متقی ہندی نے اپنی کتاب کنز العمال کی جلد 4 میں درج کئے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے علماء اہل سنت نے چالیس حدیثوں سے زیادہ ابن عباس سلمان، جابر اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہے جنھیں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف طریقوں سے نقل کیا گیا ہے۔
عربی سے اردو، فارسی، انگریزی کی تمام لغت میں فاطمہ فطم سے بتایا گیا ہے اور روائی معنی میں فاطمہ وہ ہیں جو اپنے شیعوں کو جہنم سے جدا کریں گیں۔ علامہ مجلسی نے بحار کی ۲۳ ویں جلد میں ۲۰ حدیثیں جناب فاطمہ علیہا السلام کے اکثر ناموں اور القاب کے بارے میں لکھا ہے۔
امالی اور خصال میں یونس بن ظبیان سے ایک روایت میں جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے، بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
فاطمہ سلام اللہ علیہا خدا کے حضور میں نو نام رکھتی ہیں:
(۱) فاطمہ (۲) صدیقہ (۳) مبارکہ (۴) طاہرہ (۵) زکیہ (۶) راضیه (۷) مرضیه (۸) محدثه (۹) زہرا۔
پھر فرمایا: کیا تم میں سے کوئی جانتا ہے کہ لفظ ” فاطمہ کی تفسیر اور معنی کیا ہیں؟
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: بیان فرمائیں اے میرے سید وسر دار! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
شرّ اور بدی سے دور رکھی ہوئی۔
پھر فرمایا:
اگر امیر المومنین علی علیہ السلام ان سے شادی نہ کرتے تو قیامت تک روئے زمین پر فاطمہ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ان کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کہ وہ اپنے زمانے کی عورتوں سے فضیلت میں ، دین اور حسب و نسب میں جدا تھیں ۔
(بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۰ نقل از امالی و خصال شیخ صدوق)